By Mushtaq Ahmad Yusufi
Mushtaq Ahmad Yusufi was a renowned Pakistani author, humorist, and satirist celebrated for his wit, humor, and insightful observations on life. Born in 1923 in Jaunpur, British India (now in Uttar Pradesh, India), Yusufi migrated to Pakistan after the partition in 1947. Trained as an engineer, he had a distinguished career in the civil service and corporate sector. However, his true passion lay in literature.
Yusufi’s literary career began relatively late in life, but his unique style quickly garnered acclaim. His writing seamlessly blended humor, satire, and wisdom, making him one of the most beloved Urdu authors of the 20th century. His works, including “Chiragh Talay,” “Khakam Badahan,” and “Zarguzasht,” are celebrated for their linguistic richness, clever wordplay, and profound insights into the human condition.
Throughout his life, Yusufi received numerous accolades for his contributions to Urdu literature, including the Sitara-i-Imtiaz and Hilal-i-Imtiaz awards, among others. Despite his passing in 2018, his legacy continues to inspire readers and writers alike, cementing his position as a literary icon in the Urdu-speaking world.
غالب دنیا میں واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتا ہے۔
مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
مونگ پھلی اور آوارگی میں خرابی یہ ہے کہ آدمی ایک دفعہ شروع کردے تو سمجھ میں نہیں آتا ختم کیسے کرے
عورتیں پیدائشی محنتی ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ صرف ۱۲ فیصد خواتین خوبصورت پیدا ہوتی ہیں، باقی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کرتی ہیں۔
مسلمان ہمیشہ ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
مرد عشق و عاشقی صرف ایک مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری عیاشی۔
Mushtaq Ahmad Yusufi
جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔
پرائیوٹ اسپتال اور کلینک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ موحوم کی جائداد، جمع جتھا اور بینک بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان میں خون خرابا نہیں ہوتا کیونکہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آجاتے ہیں۔
گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اور بات سے کیا جاتا ہے۔
گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو صرف اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔
آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔
دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔
جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگیں تو سمجھ لو کہ شیر کی نیت اور بکری کی عقل میں فتور ہے۔
مرد کی پسند وہ پل صراط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔
Mushtaq Ahmad Yusufi
ہماری گائکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔
بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔
عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔
خالی بوری اور شرابی کو کون کھڑا کر سکتا ہے۔
اس زمانہ میں سو فیصد سچ بول کر زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے بجری ملائے بغیر صرف سیمنٹ سے مکان بنانا۔
مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے ہیں۔
پاکستانی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔
انگریزی فلموں میں لوگ یوں پیار کرتے ہیں جیسے تخمی آم چوس رہے ہوں۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں رہتا اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہوا ہی نہیں، لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا۔
نشہ اور سوانح حیات میں جو نہ کھلے اس سے ڈرنا چاہیے۔
جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔
گانے والی صورت اچھی ہو تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
بے سبب دشمنی اور بدصورت عورت سے عشق حقیقت میں دشمنی اور عشق کی سب سے نخالص قسم ہے۔ یہ شروع ہی وہاں سے ہوتے ہیں جہاں عقل ختم ہو جاوے ہے۔
جاڑے اور بڑھاپے کو جتنا محسوس کروگے اتنا ہی لگتا چلا جائے گا۔
مجھے روشن خیال بیوی بہت پسند ہے۔ بشرطیکہ وہ کسی دوسرے کی ہو۔
شیر، ہوائی جہاز، گولی، ٹرک اور پٹھان ریورس گئیر میں چل ہی نہیں سکتے۔
جو شخص کتے سے بھی نہ ڈرے اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔
بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہر شخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
ایجاد اور اولاد کے لچھن پہلے ہی سے معلوم ہوجایا کرتے تو دنیا میں نہ کوئی بچہ ہونے دیتا اور نہ ایجاد۔
صبح اس وقت نہیں ہوتی جب سورج نکلتا ہے۔ صبح اس وقت ہوتی ہے جب آدمی جاگ اٹھے۔
بندر میں ہمیں اس کے علاوہ اور کوئی عیب نظر نہیں آتا کہ وہ انسان کا جد اعلی ہے۔
خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔
سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقی سے مطمئن نہیں ہوتا۔
اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ آدمی ایک غلط پیشہ اپنائے اور اس میں کامیاب ہوتا چلا جائے۔
عمر طبیعی تک تو صرف کوے، کچھوے، گدھے اور وہ جانور پہنچتے ہیں جن کا کھانا شرعاً حرام ہے۔
کسی خوبصورت عورت کے متعلق یہ سنتا ہوں کہ وہ پارسا بھی ہے تو نہ جانے کیوں دل بیٹھ سا جاتا ہے۔
طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہو جاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
آزاد شاعری کی مثال ایسی ہے جیسے بغیر نیٹ کے ٹینس کھیلنا۔
آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ اس واسطے کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بد مزاجی افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
دنیا میں غیبت سے زیادہ زود ہضم کوئی چیز نہیں۔
بیتی ہوئی گھڑیوں کی آرزو کرنا ایسا ہی ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ کو واپس ٹیوب میں گھسانا۔
کسی اچھے بھلے کام کو عیب سمجھ کر کیا جائے تو اس میں لذت پیدا ہو جاتی ہے۔ یورپ اس گر کو ابھی تک نہیں سمجھ پایا۔ وہاں شراب نوشی عیب نہیں۔ اسی لیے اس میں وہ لطف نہیں آتا۔
بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگرٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔
مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہو جاتے ہیں۔
آدمی اگر قبل از وقت نہ مر سکے تو بیمے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔
ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ چھوٹا مرض دور کرنے کے لیے کوئی بڑا مرض کھڑا کردو۔ چنانچے مریض نزلے کی شکایت کرے تو دوا سے نمونیہ کے اسباب پیدا کر دو۔ پھر مریض نزلے کی شکایت نہیں کرے گا۔ ہومیو پیتھی کی کرے گا۔
یاد رکھو، ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔
بھٹے، مرغی کی ٹانگ، پیاز اور گنے پر جب تک دانت نہ لگے، رس پیدا نہیں ہوتا۔
Mushtaq Ahmad Yusufi
آپ نے شاید دیکھا ہوگا کہ چینیوں کا چہرہ عمر سے بے نیاز ہوتا ہے اور انگریزوں کا جذبات سے عاری۔ بلکہ بعض اوقات تو چہرے سے بھی عاری ہوتا ہے۔
نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔
دنیا کا سب سے مہنگا سگریٹ آپ کا پہلا سگریٹ ہوتا ہے، بعد میں سب سستا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ پینے والا بھی۔
گنجان کاروباری شہر میں مچھلی اور مہمان پہلے ہی دن بدبو دینے لگتے ہیں۔
کتے کی اردو میں لے دے کے دو قسمیں ہیں۔ دوسری کو برادرِ خورد کہتے ہیں۔
دیگچی سے تہذیب یافتہ انسان وہ کام لیتا ہے جو قدیم زمانے میں معدے سے لیا جاتا تھا۔ یعنی غذا کو گلانا۔
سود اور سرطان کو بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیےمنھ کھولتے ہیں۔
Mushtaq Ahmad Yusufi